’’ پھینک دیبے، کھدان میں گاڑ دیبے [ہم تمہیں پھینک دیں گے، ریت کی کان میں دفن کر دیں گے]۔‘‘
کان کے ٹھیکہ دار نے کھپٹیہا کلاں گاؤں کی رہنے والی متھوریا دیوی سے کہا تھا۔ وہ ان سے اور تقریباً ۲۰ دیگر کسانوں سے بہت ناراض تھا، جو یکم جون کو بندیل کھنڈ کی اہم ندیوں میں سے ایک، کین کو برباد کیے جانے کے خلاف جمع ہوئے تھے، متھوریا بتاتی ہیں۔
اسی دن، گاؤں کے لوگ جل ستیاگرہ کرتے ہوئے دوپہر کے آس پاس دو گھنٹے تک کین میں کھڑے رہے۔ یہ ندی وسط مدھیہ پردیش کے جبل پور سے نکلتی ہے، اور ایم پی اور اترپردیش میں ۴۵۰ کلومیٹر تک بہتی ہوئی باندہ ضلع کے چِلّا گاؤں میں جاکر یمنا میں مل جاتی ہے۔ متھوریا دیوی کا گاؤں – جہاں کی آبادی تقریباً ۲۰۰۰ ہے – اسی ضلع کے تِندواری بلاک میں ہے۔
لیکن کین کا علاقہ، جو یہاں کے گاؤوں کے ایک چھوٹے سے مجموعہ سے ہوکر گزرتا ہے، سکڑ رہا ہے – کیوں کہ مقامی لوگوں کا ایک گروپ اس کے دونوں کناروں پر کھدائی کر رہا ہے۔ کسانوں کا الزام ہے کہ یہ مافیا ریت کی کانکنی کرنے والی دو کمپنیوں کے لیے کام کرتا ہے۔ ریت کی کھدائی غیر قانونی ہے، ۶۳ سالہ متھوریا دیوی کہتی ہیں – جن کے پاس کین کے نزدیک ایک بیگھہ سے تھوڑا زیادہ یا تقریباً آدھا ایکڑ زمین ہے – اور یہ ان کے کھیتوں اور معاش کو برباد کر رہا ہے۔
’’وہ بُلڈوزر کے ذریعہ ہماری زمین پر بڑے پیمانے پر کھدائی کر رہے ہیں – ۱۰۰ فٹ گہرائی تک،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ندی کے کنارے ۲ جون کو جب وہ مجھ سے بات کر رہی تھیں، تو دو نوجوان، جنہیں وہ نہیں جانتیں، ان کا ویڈیو بنا رہے تھے۔ ’’وہ ہمارے درختوں کو پہلے ہی مار چکے ہیں، اب وہ اُس ندی کو مار رہے ہیں جس سے ہم کبھی پانی نکالا کرتے تھے۔ ہم پولیس کے پاس بھی گئے تھے، لیکن ہماری کوئی نہیں سنتا۔ ہم خطرہ محسوس کر رہے ہیں...‘‘
ریت کی کھدائی کی مخالفت میں متھوریا جیسے دلتوں اور سُمن سنگھ گوتم – ۳۸ سالہ بیوہ جن کے دو بچے ہیں – جیسے چھوٹے ٹھاکر کسانوں کے درمیان یکجہتی دیکھنے کو ملی، جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ کھدائی کرنے والوں نے ان کی ایک ایکڑ زمین کے کچھ حصے سے ریت نکالی ہے۔ ’’ہمیں ڈرانے دھمکانے کے لیے انہوں نے ہوا میں گولیاں تک چلائی ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
کھپٹیہا کلاں گاؤں کے کسان عام طور سے گیہوں، چنا، سرسوں اور مسور کی کھیتی کرتے ہیں۔ ’’میرے ۱۵ بیسوا کھیت میں سرسوں کی فصل کھڑی تھی، لیکن مارچ میں انہوں نے سب کو کھود دیا،‘‘ سُمن نے بتایا۔

باندہ ضلع کی کین ندی میں یکم جون کو جل ستیاگرہ کیا گیا، جو اُس علاقے میں ریت کی کھدائی کے خلاف تھا، جس نے گاؤوں والوں کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ عورتوں نے بتایا کہ ندی کیسے سکڑ گئی ہے، اور مانسون کے دوران، جب کھودی گئی مٹی کا انبار بہہ جاتا ہے، تو کئی بار ان کے مویشی کیچڑ والے پانی میں پھنس کر ڈوب جاتے ہیں
گاؤوں والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان برسوں میں اپنی فصلوں کی حفاظت کرنا سیکھ لیا ہے۔ ’’کبھی کبھی، ہم کٹائی کے وقت تک فصل کو بچانے میں کامیاب رہتے ہیں،‘‘ متھوریا دیوی کہتی ہیں، ’’اور بدقسمتی کے برسوں میں، اپنی فصلیں کھدائی کے سبب کھو دیتے ہیں۔‘‘ گاؤں کی ایک اور کسان، آرتی سنگھ کہتی ہیں، ’’ہم صرف اُس کھدائی والی زمین کی کھیتی پر منحصر نہیں رہ سکتے۔ ہم الگ الگ جگہوں پر اپنی چھوٹی زمینوں پر بھی کھیتی کر رہے ہیں۔‘‘
جل ستیاگرہ میں حصہ لینے والی سب سے بزرگ کسان، ۷۶ سالہ شیلا دیوی تھیں۔ ان کی زمین کسی زمانے میں ببول کے درختوں سے بھری ہوئی تھی: ’’میں نے اور میری فیملی نے انہیں ایک ساتھ لگایا تھا۔ اب کچھ بھی نہیں بچا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’انہوں نے سب کچھ کھود دیا ہے، اب وہ ہمیں دھمکی دیتے ہیں کہ اگر ہم نے ان کے خلاف آواز اٹھائی، خود اپنی زمین کے لیے معاوضہ مانگا، تو وہ ہمیں اس کے اندر دفن کر دیں گے۔‘‘
کین کے کنارے ریت کی کھدائی ۱۹۹۲ کے سیلاب کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے لگی۔ ’’نتیجتاً، ندی کے کنارے مروم [اس علاقے میں پائی جانے والی لال ریت] جمع ہو گئی،‘‘ حقوق کی لڑائی لڑنے والے باندہ کے ایک کارکن، آشیش دیکشت بتاتے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں کھدائی کی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے، وہ کہتے ہیں۔ ’’میرے ذریعہ دائر کی گئی ایک آر ٹی آئی [حق اطلاع کی درخواست] کے جواب میں کہا گیا ہے کہ جن مشینوں کو میں نے برسوں سے استعمال ہوتے دیکھا ہے، ان پر اب پابندی ہے۔ یہاں کے لوگوں نے اس کے خلاف پہلے بھی آواز اٹھائی تھی۔‘‘
’’ریت کی کھدائی کے زیادہ تر پروجیکٹوں کو ضلع کانکنی منصوبہ کی بنیاد پر منظوری دی جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ریت کے بڑے علاقوں میں ان منصوبوں پر عمل نہیں کیا جاتا،‘‘ بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی، لکھنؤ کے پروفیسر وینکٹیش دتّہ، جو ندیوں کے ماہر ہیں، نے مجھے فون پر بتایا۔ ’’کانکنی کرنے والے عام طور پر پانی کے راستے میں کھدائی کرتے ہیں، جو ندی کے کناروں کی قدرتی بناوٹ کو تباہ کر دیتی ہے۔ وہ آبی رہائش کو بھی برباد کر دیتی ہیں۔ ماحولیاتی اثرات کے جائزہ میں طویل مدت تک بڑے پیمانے پر کھدائی کے مجموعی اثر پر دھیان نہیں دیا جاتا ہے۔ میں یمنا میں کانکنی کے ایسے کئی پروجیکٹوں کے بارے میں جانتا ہوں، جس نے ندی کی راستے کو بدل دیا ہے۔‘‘
یکم جون کو جل ستیاگرہ کے بعد، باندہ کے ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ، سنتوش کمار اور سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم)، رام کمار نے اس جگہ کا دورہ کیا۔ ایس ڈی ایم نے بعد میں مجھے فون پر بتایا، ’’جن کی زمینیں بغیر رضامندی کے کھودی گئی ہیں، وہ حکومت سے معاوضہ پانے کے حقدار ہیں۔ لیکن اگر انہوں نے پیسے کے لیے اپنی زمین فروخت کی ہے، تو ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ اس معاملے کی جانچ چل رہی ہے۔‘‘ کان اور معدنیات قانون، ۱۹۵۷ (جس میں ۲۰۰۹ میں ترمیم کی گئی) کے تحت معاوضہ متعین ہے۔
’’اس سال کی ابتدا میں، ہمیں ایک کمپنی کے خلاف اس گرام سبھا کی زمین پر غیر قانونی کانکنی کی شکایت ملی تھی، جس کے پاس ایک زمین پٹّہ پر ہے، اور وہ قصوروار پائے گئے تھے،‘‘ رام کمار کہتے ہیں۔ ’’اس کے بعد، ایک رپورٹ ڈی ایم [ضلع مجسٹریٹ] کو بھیجی گئی اور کمپنی کو نوٹس دیا گیا۔ باندہ میں غیر قانونی کھدائی لمبے عرصے سے چل رہی ہے، میں اس سے انکار نہیں کر رہا ہوں۔‘‘

جل ستیاگرہ میں شریک ہونے والی سب سے بزرگ خاتون، ۷۶ سالہ شیلا دیوی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی زمین کسی زمانے میں ببول کے درختوں سے بھری ہوئی تھی۔ ’’اس میں متعدد درخت تھے۔ ہم نے اسے ایک ساتھ لگایا تھا؛ میں اور میری فیملی نے۔ اب کچھ نہیں بچا ہے۔‘‘

متھوریا دیوی نو سال کی عمر میں شادی کے بعد اس گاؤں میں آئی تھیں۔ ’’میں یہاں تب سے رہ رہی ہوں جب سے میں یہ جاننے لگی تھی کہ گاؤں کیا ہوتا ہے، زمین کیا ہوتی ہے۔ لیکن اب، وہ کہتے ہیں، ہماری زمین اور گاؤں سیلاب میں ڈوب جائیں گے [مانسون کے دوران، کیوں کہ بے شمار درخت بلڈوزر کے ذریعے اکھاڑ دیے گئے ہیں]۔ ہمارے درخت پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں۔‘‘

’’یہی وہ جگہ ہے جہاں ہم دو گھنٹے کھڑے رہے،‘‘ چندا دیوی کہتی ہیں۔ یکم جون، ۲۰۲۰ کو کھپٹیہا کلاں گاؤں کے کسانوں نے کین ندی کے اندر کھڑے ہوکر، ندی کے کنارے ریت کی غیر قانونی کھدائی کے خلاف جل ستیاگرہ کیا۔

رمیش پرجاپتی اور ان کی فیملی اپنی زمین کو دیکھنے کے لیے نکلی – اسے ریت کی کھدائی کے لیے ۸۰ فٹ گہرا کھود دیا گیا تھا۔

کھپٹیہا کلاں کے باشندے لاک ڈاؤن کے دوران اپنی زمینوں کو دیکھ پانے میں ناکام رہے۔ کھدائی کے لیے بلڈوزر چلانے والے مقامی نوجوانوں نے بتایا کہ ان کی زمینوں کو ۱۰۰ فٹ گہرا کھود دیا گیا ہے۔ جل ستیاگرہ کے ایک دن بعد، کچھ عورتیں اپنی زمینوں کو دیکھنے کے لیے اُتھلے ندی کے اُس پار گئیں۔

ریت بھرنے اور ڈھونے کے لیے ٹرکوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔

راجو پرساد، ایک کسان، ریت کے ٹھیکہ دار (تصویر میں موجود نہیں) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’وہ میری زمین کھود رہا ہے۔ میرے اعتراض کرنے پر بھی وہ رک نہیں رہا ہے۔ میرے لڑکے بچے اب وہاں بیٹھے ہیں۔ وہ انہیں بھی وہاں سے چلے جانے کے لیے کہہ رہا ہے۔ وہ اب وہاں پر واحد بچے درخت، بانس کو بھی کاٹ رہے تھے۔ میرے ساتھ آکر خود دیکھ لو۔‘‘

جل ستیاگرہ کے جواب میں، یکم جون کو کھدائی کرنے والی مشینوں کو کچھ وقت کے لیے روک دیا گیا تھا۔ پہلے سے ہی نکالی جا چکی ٹنوں ریت کے انبار لگے ہوئے ہیں۔

گروپ کی دو عورتیں ٹرک ڈرائیوروں اور بلڈوزر چلانے والوں سے پوچھ رہی ہیں کہ کیا ان کی زمین سے انہیں ریت نکالنے کی اجازت ہے۔

متھوریا دیوی، آرتی اور مہندر سنگھ (بائیں سے دائیں) اس بورڈ کے سامنے کھڑے ہیں جس پر ریت کی کھدائی کرنے والی ایجنسی کا نام لکھا ہے۔ انہوں نے اس ایجنسی کے خلاف کھپٹیہا کلاں پولیس چوکی میں شکایت درج کرائی ہے۔

میں نے جب اس ایجنسی کے اہلکاروں سے بات کرنے کی کوشش کی، تو اس کے دفتر کے دروازے بند تھے۔

سُمن سنگھ گوتم کا الزام ہے کہ جل ستیاگرہ کے بعد جب وہ اپنے گھر واپس آئیں، تو انہیں ڈرانے کے لیے ہوا میں گولی چلائی گئی تھی۔ ’’میں نے پولیس کو خبر کر دی تھی، لیکن ابھی تک کوئی بھی جانچ کرنے نہیں آیا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

سمن سنگھ گوتم کے گھر پر اوشا نشاد – ان دونوں نے ستیاگرہ کی قیادت کی تھی، اور یوپی کے وزیر اعلیٰ سے ملنے کے لیے لکھنؤ جانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔

ایک بیل گاڑی ریت کے اُس پُل سے ہوکر گزر رہی ہے، جو اب کین ندی کو روکتی ہے۔ کھپٹیہا کلاں گاؤں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ یہ پُل کانکنی کے مقصد سے بنایا گیا تھا۔

یہ ندی کے پانی کے بہاؤ کو روکنے – اور مزید ریت نکالنے میں ان کی مدد کرنے کے لیے کانکنی ایجنسیوں کے ذریعہ ریت سے بنایا گیا عارضی پُل ہے – اس عمل میں نباتات، فصلیں، زمین، پانی، معاش وغیرہ برباد ہو رہے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز